اردو کے فروغ کےلئے جدید ٹیکنالوجی کے

استعمال کی ضرورت پر زور

 سلطان الشعراءصوفی سلطان شطاری کے کلام کے مجموعوں کی رسم رونمائی ۔ ویب سائیٹ کا افتتاح

 محمود علی صاحب(ہوم منسٹر تلنگانہ) 

 جناب زاہد علی خاں(ایڈیٹر سیاست) کی تقاریر

 حیدرآباد کے بزرگ شاعر سلطان الشعراءصوفی سلطان شطاری کی ادبی خدمات کو تلنگانہ کے وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی کے علاوہ ادیبوں اور دانشوروں ، شاعروں نے خراج تحسین پیش کیا۔ میڈیاپلس آڈیٹوریم میں بتاریخ : ۹؍اکٹوبر ۲۰۲۱ء بروز ہفتہ شام ۶؍بجے صوفی سلطان شطاری کے کلام کے چار مجموعے اور ان پر ایک خصوصی سوونیئر کے دوسرے ایڈیشن کی رسم اجرائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب محمد محمود علی صاحب (ہوم منسٹر ریاست تلنگانہ) نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ صوفی سلطان شطاری صاحب نے اپنے کلام کو ڈیجیٹلائزڈ کردیا ہ اور اپنے ویب سائیٹ کے ذریعہ جس میں ان کے اردو کلام کو رومن انگریزی میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ غیر اردو داںافراد میں روشناس کرنے کا ایک قابل تقلید کام کیا ہے۔ انہوں نے اردو کے فروغ کے  لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔ جناب محمد محمود علی صاحب نے صوفی سلطان شطاری ڈاٹ کام ویب سائیٹ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی ڈاکٹر محمدغوث، پروفیسر ایس ۔اے۔ شکور ڈائرکٹر CEDM، پروفیسر مجید بیدار، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ڈاکٹر فاروق شکیل، ڈاکٹر م۔ق۔سلیم کے علاوہ سلطان شطاری کے فرزند ڈاکٹر عبدالمعز شطاری نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر جاوید کمال نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ جس کے بعد صوفی سلطان شطاری کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں منتخب مدعو شعراء صوفی سلطان شطاری، ڈاکٹر راہی، فاروق شکیل، سردار سلیم، سمیع اللہ سمیعؔ، محبوب خاں اصغر، سیف نظامی، ڈاکٹر عطیہ مجیب عارفی،تسنیم جوہر، وحید گلشن،ڈاکٹر صادق، ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری، شاخ انور، شکیل حیدر، سراج یعقوبی،حلیم بابر اور جہانگیر قیاس نے کلام سنایا۔ جناب محبوب خان اصغر نے مشاعرہ کی نظامت کی۔ قبل ازیں جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر سیاست نے اپنے قیام گاہ پر صوفی سلطان شطاری صاحب کی کتابوں کی رسم اجراء انجام دی اور ان کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان سے اپنی دیرینہ رفاقت کا ذکر کیا اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

٭٭٭

Urdu ke farogh ke liye jadeed technology ke
istemaal ki zaroorat par zor

Sultan ul shura Sufi Sultan Shuttari ke kalaam ke majmuon ki Rasam Rounamai. Website ka Iftetah
Mahmood Ali Sahab (Honorable Home Minister of Telangana)
janab Zahid Ali Khan (Editor Siasat) ki taqareer
hyderabad ke buzurag shayar Sultan ul Shura Sultan Shuttari ki adabi khidmaat ko telengana ke vazeer e dakhla janab Mohammad Mahmood Ali ke alawa adeebon aur danishwaron, shaeron ne kharaaje tehseen paish kya. Mediya Plus Aditorim mein batarikh 9 October 2021 baroz hafta shaam 6 baje Sufi Sultan Shuttari ke kalaam ke chaar majmoay aur un par ek khusoosi Souvenir ke dossrey edition ki rasam ijra ki taqreeb se khitaab karte hue Janab Mohammad Mahmood Ali sahib ( home minister riyasat telengana) ne is baat par musarrat ka izhaar kiya ke Sufi Sultan Shuttari Sahib ne apne kalaam ko digitalized kardiya hay aur apne Website ke zareya jis mein un ke urdu kalaam ko roman angrezi mein bhi paish kiya gaya hai. ghair urdu daan afraad mein roshnaas karne ka ek qabil taqleed kaam kiya hai. unhon ne urdu ke farogh ke liye jadeed technology ke istemaal ki zaroorat par zor diya. Janab Mohammad Mahmood Ali sahib ne Sufi Sultan Shuttari dot com Website ka iftitah kya. is mauqa par director secretary urdu academy Dr. Mohammed Ghouse, Professor S.A. Shukoor Director CEDM , Professor Majeed Bedaar, Dr. Syed Fazil Hussain Parvez , Dr. Farooq Shakeel, Meem. Qaaf. Saleem ke alawa Sultan Shuttari ke Farzand Dr. Abdul Moiz Shuttari ne khitaab kiya. Dr Javed Kamaal ne nizamat ke faraiz anjaam diye. jis ke baad Sufi Sultan Shuttari ki sadarat mein mushaaira munaqqid huwa. jis mein muntakhib madoo shouraa Sufi Sultan Shuttari, Dr. Raahi, Farooq Shakeel, Sardar Saleem ,  Sami Ullah Samee, Mehboob Khan Asghar, Saif Nizami ,  Dr. Atiyah Mujeeb Aarifi, Tasneem Johar, Waheed Gulshan  ,  Dr.Sadiq ,  Dr. Tayyab Pasha Qadri, Shaakh Anwar, Shakeel Haider  , Siraj Yaqobi, Haleem Babar aur Jahangir Qiyaas ne kalaam sunaya. Janab Mahboob Khan Asghar ne mushaaira ki nizamat ki. qabal azeen Janab Zahid Ali Khan Editor Siasat ne apne qiyam gaah par Sufi Sultan Shuttari Sahib ki kitabon ki Rasam Ijra anjaam di aur un ki adbi khidmaat ko khiraaj tehseen paish kiya aur un se apni dereena rafaqat ka zikar kiya aur naik tamannaon ka izhaar kiya.

 

سلطان الشعراء صوفی سلطان شطاریؔ اپنے آئینہ میں

ڈاکٹر م۔ق۔سلیم
صدر شعبہ اردو شاداں کالج
جب کسی کی شخصیت بن جاتی ہے تو اس پر لکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس پر قلم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے۔ شخصیت دراصل فرد کے ذہنی، جسمانی، برتاؤ، رویوں،اوصاف وکردار کے مجموعہ کا نام ہے۔ انسان کی ظاہری وباطنی صفات، اخلاق، عادات ، اقدار ، خد وخال، احساسات اور جذبات اور ظاہری حلیہ دیکھ کر ہم وقتی طور پر کچھ لکھ دیتے ہیں۔ جو صرف دکھاوا کہلائے گا، اگر ہم اس کی شخصیت میں چھپے انسان کو باہر لائیں تو اس کی شخصیت زندۂ جاوید بن جاتی ہے۔
کتاب زیست ہمارے سامنے ہے اور شخصیت بھی۔ قلم شخص کو شخصیت بنادیتا ہے۔ انسان میں بہت کچھ کرنے کی جستجو اسے منزل کی طرف لے جاتی ہے اور وہ ایک کامیاب انسان بن کر انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت آج ہمارے درمیان ہے۔ جن کی پانچ کتابوں کی دوسری اشاعت بلکہ (عقد ثانی) اس پر رونق محفل میں ہونے والی ہے۔ شاید ہی ایسی محفل وہ بھی دوسرے ایڈیشن کی رکھی گئی ہو۔
یہ محفل جس شخصیت کے لئے سجی ہے بلکہ سجائی گئی ہے ان کا نام نامی حضرت صوفی محمد سلطان شطاری عادل آبادی حال مقیم حیدرآبادی ہے۔
حضور اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔
’’اچھے نام رکھا کرو اس سے اس کی تاثیر آتی ہے‘‘۔
وہ صوفی ہیں: صوفی کے معنی متقی، پرہیزگار، پارسا، چشم پوش، دیندار، پاک باطن، درویش، زاہد، عابد کے ہیں، آپ ایک صوفی صافی، صوفی نما، صوفی ٔ نفس،صوفی شاعر ہیں۔ ان کی وضع قطع ، ڈیل ڈول، پوشاک سب صوفیانہ ہے۔ ظاہر ہے ایسے شخص کی شاعری صوفیانہ ہوگی جس میں عشق مجازی کے بجائے عشق حقیقی، اور مذہبی جذبات کی عکاسی ہے۔
کسی شاعر نے کہا :

ارض وسما کہاں تیری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سماسکے

صوفی کے ساتھ سلطان بھی ہیں۔ اور اپنی سلطانی وحکمرانی چلاتے ہیں۔ تین شہزادے اور دو شہزادیاں ہیں۔ اس حلیہ کے اہتمام وانعقاد سے آپ ان کی حکمرانی کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کیا انتظام ہے۔ وہ سلطان ہی نہیں سلطان الاذکار، سلطان الاشجار، سلطان عادل اور سلطان حیدرآباد بھی ہیں۔
سلطانی کے ساتھ وہ قادری بھی ہیں ، یعنی قادر بھی ہیں۔ علم کی دولت کے ساتھ اللہ نے انہیں دولت سے بھی نوازا۔ اس کا ثبوت ہے کہ وہ ہر ذی علم کو اپنی پانچ کتابوں کا تحفہ مفت دے رہے ہیں بلکہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کو اپنے خرچہ پر مفت روانہ کر رہے ہیں۔ اور وہ حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی، پیران پیر دستگیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے سلسلہ سے ہیں۔ انہوں نے قادریہ تصوف اور طریقت کو اپنایا اور صوفی بنے رہے۔

تمہارے نام پر میں نے ہر آفت سر پہ رکھی تھی
نظر شعلوں پہ رکھی تھی زباں پتھر پہ رکھی تھی

ایسے شخص کی فکر کیسی ہوگی اور جب اس نے شاعری کی تو سب سے پہلے ۱۹۸۵ء میں جو کتاب شائع کی اس کا نام ’’متاعِ نجات‘‘ تھا۔ یعنی پہلا قدم ہی نجات کی پونجی کے ساتھ ہے اور اس میں اپنا تمام نعتیہ اثاثہ شامل کیا۔
’’متاعِ نجات‘‘ کے بعد ایک نئی فکر منصہ شہود پر آئی۔ اور غزلوں کا مجموعہ ’’خامۂ فکر‘‘ ۱۹۸۷ء منظر عام پر آیا۔ اس میں انہوں نے غزل کو تصوفانہ رنگ دیا، ان کی اس فکر کو ملاحظہ کیجئے۔

تصویر محبت میں کیان شانِ خدائی ہے
پردے پہ مصور کا جلوہ نظر آتا ہے

جگر میں درد اٹھا اور آنکھ بھر آئی
گذرے ہیں وہ شاید غریب خانے سے

ان اشعار سے آپ ان کی فکر کو سمجھ سکتے ہیں۔
نجات مل گئی ، فکر ختم ہوئی، تو اپنا تیسرا مجموعہ ’’سراجا منیرا‘‘ ۲۰۰۷ء میں منظر عام پر لایا۔ نام ہی ایسا جو حضور کا ہو۔ ان کی زندگی اس مجموعہ کے بعد روشن چراغ بن گئی۔ یہ نام گلبرگہ کے سجادہ صاحب کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے بھی اپنی کتاب کا نام یہی تجویز کیا۔
ان کا یہ شعر دیکھئے:

منزل کی تمنا میں بھٹکتے ہی رہے لوگ
منزل کا پتہ ہم کو مدینے سے ملا ہے

نجات مل گئی، فکر ختم ہوئی، چراغ روشن ہوئے، زندگی رنگین ہوگئی۔ ہمہ جہت بن گئی۔ اور پھر چوتھی کتاب رنگ غزل، ۲۰۰۸ء میں وجود میں آئی ، سرورق کی طرح اس میں غزلیں بھی رنگین ہیں۔ اس میں غزل بولتی ہے مگر رومانیت کے ساتھ صوفیانہ رنگ بھی اس میں چھلکتا ہے۔

جس دن سے قریب آئے وہ خود میرے دل کے
اس دن سے کوئی راز چھپایا نہیں جاتا

نام پر ہم کسی کے مرجاتے
کام ایسا کوئی تو کر جاتے

ان چار کتابوں کے ناموں سے آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ ان کی فکر کیا ہے سوچ کیا ہے ۔ میں نے ابتداء میں کہا کہ جب شخصیت بن جاتی ہے تو اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ صوفی صاحب کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ۲۰۰۹ء میں ایک ساوینیر ’’نقوش ادب‘‘ شائع کیا گیا، اس میں صوفی صاحب کی شخصیت کے مکمل نقوش کا جائزہ لیا گیا۔ بڑی بڑی ادبی شخصیتوں نے آپ پر لکھا اور ان کی کتابوں پر سیر حاصل تبصرے کئے۔ یہ ساوینئرگولڈن جوبلی جشن صوفی سلطان شطاری کے موقع پر شائع ہوا اگر وہ اپنی ۷۵ ویں سالگرہ پلاٹینم جوبلی کا جشن مناتے تو بہت کچھ ان پر لکھا جاتا مگر آج وہ ۷۹ ؍ ایک کم ۸۰ سال کے ہوگئے ہیں۔ اب بھی چہرے سے صوفیانہ رنگ چھلکتا ہے۔
میں ہر کتاب پر مختصر بھی کہوں گا تو کئی گھنٹے درکار ہوں گے ۔ میں انہیں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ انہیں عمر دراز اور صحت مند زندگی عطا کرے۔آخر میں ان کی نذر یہ شعر جو کہ اکبر الہ آبادی کا ہے کرتا ہوں۔

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
٭٭٭

Sultan ul Shura Sufi Sultan Shuttari
apne aaina mein

Dr. Meem Qaaf Saleem
Saddar Shoba Rrdu Shadan College
jab kisi ki shakhsiyat ban jati hai to is par likhna mushkil hojata hai. is par qalam soch samajh kar uthana padta hai. shakhsiyat darasal fard ke zahni, jismani, bartao rawaiyyon, awsaf w kirdar ke majmoa ka naam hai. insaan ki zahiri w batini sifaat, akhlaq, aadaat, iqdaar, khad w khal, ihsasat aur jazbaat aur zahiri huliya dekh kar hum waqti tur par kuch likh dete hain. jo sirf dikhawa kahlayega, agar hum is ki shakhsiyat mein chupay insaan ko bahar laein tu is ki shakhsiyat zinda e javed ban jati hai.
kitaab zeist hamaray samnay hai aur shakhsiyat bhi. qalam shakhs ko shakhsiyat bnadita hai. insaan mein bohat kuch karne ki justojoo usay manzil ki taraf le jati hai aur woh ek kamyaab insaan ban kar un mit nuqoosh chode jata hai. aisi hi ek shakhsiyat aaj hamaray darmiyan hai. jin ki paanch kitabon ki doosri ishaat balkay (aqab sani ) is pur ronaqe mahfil mein honay wali hai. shayad hi aisi mehfil woh bhi dosray eddition ki rakhi gayi ho.
yeh mahfil jis shakhsiyat ke liye saji hai balkey sajai gai hai un ka naam nami Hazrat Sufi Mohammad Sultan Shuttari Adil Abadi haal muqeem Hyderabadi hai.
huzoor akram saws ka irshad mubarak hai.
achay naam rakha karo is se is ki taseer aati hai.
woh Sufi hain : Sufi ke maney muttaqi, parhaizgaar, paarsa, chasham posh, deendar, pak batin, darwaish, zahid , abid ke hain, aap ek sufi saafi, sufi numa, sufi? nafs, sufi shayar hain. un ki waza qata deal doll, poshak sab sufiyana hai. zahir hai aisay shakhs ki shairi sufiyana hogi jis mein ishhq majazi ke bajaye ishq haqeeqi, aur mazhabi jazbaat ki akkaasi hai.
kisi shayar ne kaha :

arz w sama kahan teri wusat ko paske
mera hi dil hai wo ke jahan to sama sake

sufi ke sath sultan bhi hain. aur apni sultaani hukmarani chlate hain. teen sahebzaade aur do shehzaadiyan hain. is huliya ke ihtimaam w ineqaad se aap un ki hukmarani ka andaza laga saktay hain ke kiya intizam hai. woh sultan hi nahi sultan ul azkar sultan ul ashjaar, sultan adil aur sultan hyderabad bhi hain.
sultaani ke sath woh qadri bhi hain, yani qadir bhi hain. ilm ki daulat ke sath Allah ne inhen daulat se bhi nawaza. is ka saboot hai ke woh har zee ilm ko apni paanch kitabon ka tohfa muft day rahay hain balkay mulk bhar ki universitiun ki laibreriyon ko apne kharcha par muft rawana kar rahay hain. aur woh hazrat mahboob subhani qutub rabbani peerane peer dastagir hazrat Sheikh Abdul Qadar Jelani? ke silsile se hai. unhon ne qadriah tasawwuf aur tareqat ko apnaya aur sufi banay rahay.

tumahray naam par mein ne har aafat sar pay rakhi thi
nazar shulon pay rakhi thi zuba pathar pay rakhi thi

aisay shakhs ki fikar kaisi hogi aur jab is ne shairi ki tu sab se pahlay 1985 mein jo kitaab shaya ki is ka naam’ ‘ Mata-e-Njaat’ ‘ tha. yani pahla qadam hi njaat ki poonji ke sath hai aur is mein apna tamam natih asasa shaamil kiiya.

Mata-e-Njaat’ ‘ ke baad ek nai fikar mansh e shahood par aayi. aur ghazlon ka majmoa’ ‘ Khama-e-Fikar’ 1987 manzar aam par aaya. is mein unhon ne ghazal ko tasuwufana rang diya, un ki is fikar ko mulahiza kijiye.

 

tasweer mohabbat mein kiya shan-e-khudai hai
parday pay musawir ka jalva nazar aata hai
jigar mein dard utha aur aankh bhar aai
guzray hain woh shayad ghareeb khanay se
in ashaar se aap un ki fikar ko samajh satke hain.

Najaat mil gai, Fikar khatam huvi, to apna teesra majmoa’ ‘ Sirajan Muneera 2007 mein manzar aam par laya. naam hi aisa jo huzoor ka ho. un ki zindagi is majmoa ke baad roshan chairag ban gayi. yeh naam gulberga ke sajadh sahib ko itna pasand aaya ke unhon ne bhi apni kitaab ka naam yahi tajweez kiya.
un ka ye shair dekhye :

manzil ki tamanna mein bhataktay hi rahay log
manzil ka pata hum ko madeeney se mila hai


njaat mil gayi, fikar khatam huvi, chairag roshan huve, zindagi rangeen hogayi. hama jahat ban gai. aur phir chothi kitaab Rang Ghazal, 2008 mein wujood mein aai, sar warq ki tarha is mein gazleen bhi rangeen hain. is mein ghazal bolti hai magar romaniyat ke sath sufiyana rang bhi is mein chhalakta hai.

jis din se qareeb aaye woh khud mere dil ke
is din se koi raaz chupaya nahi jata
naam par hum kisi ke marjate
kaam aisa koi tu kar jatay

in chaar kitabon ke naamon se aap ne andaza lagaya hoga ke un ki fikar kiya hai soch kiya hai.
mein ne ibtida mein kaha ke jab shakhsiyat ban jati hai tu is par bahut kuch likha ja sakta hai. sufi sahib k shakhsiyat ko kharaaj tahseen paish karne ke liye 2009 mein ek souvenir ‘ Noqoosh-e-Adab’ ‘ shaya kiya gaya, is mein sufi sahib ki shakhsiyat ke mukammal nuqoosh ka jaiza liya gaya. badi badi adabi shakhsiyatiun ne aap par likha aur un ki kitabon par sair haasil tabsaray kiye. yeh souvenir golden jubilee Jashnn Sufi Sultan Shuttari ke mauqa par shaya huwa agar woh apni 75 veen saalgirah platinum jubilee ka jashn manate to bahut kuch un par likha jata magar aaj woh 79 ? ek kam 80 saal ke hogaye hain. ab bhi chehray se sufiyana rang chalakta hai.
mein har kitaab par mukhtasar bhi kahoon ga to kai ghantey darkaar honge. mein inhen dil ki ameeq gahraiuon se mubarakbaad deta hon. Allah inhen umar daraaz aur sahat mand zindagi ataa kere. aakhir mein un ki nazar ye shair jo ke akbar ilah abadi ka hai karta hon.

log kahte hain badalta hai zamana sab ko
mard woh hain jo zamane ko badal dete hain

روحانی عقیدتمندی کے مزاج شناس شاعر
سلطان الشعراءصوفی سلطان شطاری

پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد
عصر حاضر میں شعر و ادب کے توسط سے ترقی پسندی اور جدیدیت ہی نہیں ،بلکہ مابعد جدیدیت کے رجحان کو فروغ حاصل ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجہ میں روایت پرستی کو نظرانداز کرنے کا طویل سلسلہ بھی جاری ہے۔ روایت پرستی نہ تو عیب ہے اور نہ ہی اس کے ذریعہ کسی قسم کے ادبی یا اخلاقی رجحان کی خرابی ظاہر ہوتی ہے، بلکہ روایت پرستی میں موجود اہم خیالات کو وسعت دینے سے بھی ادب کی موثر نمائندگی ممکن ہے۔ تقدس اور روایتی شاعری کا پاس و لحاظ رکھنے والے حیدرآباد کے بزرگ شاعروں میں صوفی سلطان شطاری کا شمار ہوتا ہے۔ جن کا مسلک صوفیانہ ہی نہیں، بلکہ حددرجہ منصفانہ اور روحانیات سے وابستہ ہے۔ لازمی ہے کہ انہوںنے اپنی زندگی گذارنے کے لئے جس روحانی طرز کو اختیار کیا، شاعری کے دوران بھی ان ہی خصوصیت کو پیش نظر رکھا۔ قدیم دور سے لے کر آصف سابع کے دور تک صوفیاکرام اور بزرگانِ دین ہی نہیں، بلکہ خداپرست لوگوں کا یہ رجحان تھا کہ وہ غزل، نظم، مثنوی، مرثیہ ، قصیدہ، رباعی اور دوسری شعری اصناف میں اظہارِ خیال کرکے باضابطہ شاعری کا ادراک رکھنے کا ثبوت پیش کرتے ہے۔ اسی طرح اس دور کے مزاج کے مطابق مجرہ، ٹھمری، گیت، دادرا وغیرہ لکھ کر شاعری میں اپنی یکتائی کو بھی واضح کردیا۔ اسی سلسلہ کی کڑی صوفی سلطان شطاری بھی ہیں، جنہوں نے اپنے آبا و اجداد اور صوفیا کرام کی طرزِ شاعری کو  اختیار کرتے ہوئے جہاں رومانیت کے جلوے دکھائے ہیں، وہیں روحانیت کو بھی اپنی زندگی کالازمہ بناکر حمد و نعت و منقبت کی شاعری کے علاوہ سلام اور مناجات کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری کو عقیدت پسند شاعری کے زمرے میں شامل کیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔
خدا ور اس کے رسول ؐ سے عقیدت ظاہر کرنا بلاشبہ ایک مسلمان کا فرض عین ہے، لیکن جب کوئی شخص مذہبی افکار سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں شامل ہونے والی روحانیت خود اسے دلی عقیدت کے مختلف گوشوں سے واقفیت دلاتی ہے اور اگر شاعر کا مزاج رکھتا ہے تو خیالات کو دل و دماغ کے حدود سے نکال کر روحانیات کے حدود میں داخل کردیتی ہے۔ صوفی سلطان شطاری نے اپنی عقیدت کے گوشوں کو روشن کرتے ہوئے دو اہم شعری مجموعے ’’متاع نجات‘‘ اور ’’سراجا ً منیرا‘‘ پیش کئے ہیں، جن میں شعر گوئی کو عقیدت کے احساسات سے واقف کیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف حمد و نعت لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں، بلکہ نعتیہ قطعات اور منقبت کے علاوہ مناجات اور حضور پر نورؐ پر سلام پیش کرنے کے علاوہ شہدائے کربلاء کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت کا اظہار کرکے روحانی دنیا کا ایوان سجانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسلاف کے کارناموں سے فیض حاصل کرتے ہوئے صوفی سلطان شطاری نے نعتوں ،حمدوں کے علاوہ مناقب کے ذریعہ عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں۔ ان کی شاعری میں نعت کا بلند معیار اور اظہار کا برجستہ رویہ نمایاں نظر آتاہے۔ وہ نہ صرف عشق محمدی کے پروانے ہیں، بلکہ باضابطہ اپنے مسلک کے اعتبار سے حمد و نعت لکھنے کو دینی فریضہ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام شاعری کو حمد ونعت و منقبت اور سلام کی شاعری قرار دینے کے بجائے عقیدت پسندی کی شاعری قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ غرض وہ عصر حاضر کے ایسے شاعر ہیں کہ جن کا کلام عقیدت میں ڈوبا ہوا اور جن کے دل میں حبِ رسول ؐ کا جذبہ مؤجزن ہے جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں:

 

سایہ کرم کا مجھ پہ بہ فضل خدا ہے یہ
دل میرا دل نہیں ہے محمدؐ کدہ ہے یہ


اس شعر کے ذریعہ شاعر نے اپنی عقیدت کے حقائق کو نمایاں کیا ہے کہ ان کے دل میں محمدالرسولﷺ کی یاد جاگزیں ہونا اللہ کا فضل ہی ہے، جس کی وجہ سے دل کی حیثیت محمد کدہ کی ہوگئی ہے۔ پیغمبر اسلام کی تبلیغ اور آپ ؐکے ارشادات کو اہمیت دیتے ہوئے صوفی سلطان احمد شطاری لکھتے ہیں :


تمہاری گفتگو میں امر حقِ کی جھلکیاں دیکھیں
ہوا محسوس خلاقِ دو عالم کی زباں تم ہو


پیغمبر اسلام ؐ کی نسبت سے ایک مسلمان کو حاصل ہونے والی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود اپنی ذات کوعقیدت کا وسیلہ بناکر صوفی سلطان شطاری یہ لکھتے ہیں:

اک نسبت آقاؐ کے تصدق میں سرحشر
بخشش کے سبھی راستے ہموار ہوئے ہیں


شاعری میں عقیدت کو شامل کرتے ہوئے سچائی کی نمائندگی اور لفظوںکی دروبست کے توسط سے نغمگی کا جادو جگانا شعر کے حُسن میں اضافے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ صوفی سلطان شطاری کی شاعری کا یہی خصوصی وصف ہے، وہ صرف لفظوں کے ذریعہ کیفیت کو بیان نہیںکرتے بلکہ شعر میںکیفیت کو ڈھالنے کی ایسی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بے ساختہ دل سے واہ نکل جاتی ہے:

آئے رسولؐ کھل گئے دروازے نور کے
خود ہی سمٹ گئے ہیں اندھیرے مہیب سے

شاعری کے فن میں تضادات کے ذریعہ کیفیت کو نظم کرنے کا حُسن صوفی سلطان شطاری کی نعتیہ شاعری کا خصوصی وصف ہے، وہ اپنی حمد ونعت ہی نہیں بلکہ منقبت کے ذریعہ بھی ان ہی کیفیات کو واضح کرنے کا شرف حاصل کرلیتے ہیںـ۔ یہ شعر ملاحظہ ہو:

انصاف کا سورج تو بہت گرم ہے لیکن
محشر میں شفاعت کا شجر بھی تو گھنا ہے

بیک وقت غزل اور نظم کے علاوہ حمد و نعت و منقبت ہی نہیں بلکہ مجرہ، ٹھمری اور گیت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صوفی سلطان شطاری نے عقیدت کی شاعری کو زندگی کا نمائندہ بنالیا ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

فکر محشر ہو کیسے سلطاں کو
دامن مصطفیؐ ہے ہاتھوں میں

شاعری میں سہل ممتنع کے اثر کو شامل کرنا صوفی سلطان شطاری کا خصوصی وصف ہے۔ ان کی شاعری میں پیچیدہ تراکیب سے دوری کا انداز موجود ہے، وہ نہ صرف انکساری کے ساتھ عقیدت کااظہار کرتے ہیں، بلکہ عشق و محبت کے جذبہ کو اہمیت دیتے ہوئے شاعری کے صوفیانہ مزاج کی نشاندہی کے سلسلہ میں صلاحیتوںکو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کے کلام سے روح میں تازگی اور ایمان میں استقامت اور عقیدت میں تقویت پیدا ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف مختصر بحروں میں عقیدت پسند شاعری کااظہار کرتے ہیں، بلکہ طویل بحروں کے دوران بھی عقیدت کو نچھاور کرکے اظہار کی گرمی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ طویل بحر کی نعت کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

زہے قسمت کے سلطاں کو تمہارے در سے نسبت ہے
بس اس کے حامی و ناصر شہ کون و مکاں تم ہو

عقیدت کا جو انداز صوفی سلطان شطاری کے کلام کا حصہ ہے، اس میں صرف خدا اور رسولؐ کے اوصاف کا ذکر ہی نہیں بلکہ اہل بیت اطہار اور شہیدائے کربلاکے علاوہ حضرت علی مشکل کشا ؓاور غوث اعظم دستگیرؒ کی مدحت کے کئی زاویے نمایاں نظر آتے ہیں۔ حضرت امامِ حسین ؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوفی سلطان شطاری لکھتے ہیںـ:

حسینؓ عالم امکاں جاودانی ہے
زمیں کی گود میں تنویر آسمانی ہے

حضرت امام حسینؓ کی عظمت کے گن گاتے ہوئے وہ نہ صرف غوث اعظم دستگیرؒ کی مدحت کا سہارا لیتے ہیں ، بلکہ خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور خواجہ بندہ نوازؒ کی منقبت لکھ کر شعری عقیدت پسندی کو شاہکار کا درجہ دیتے ہیں۔ حضرت غوث اعظم دستگیرؒ سے عقیدت کا انداز ملاحظہ ہو:

درِ غوثِ الورا پر سرجھکاکر دیکھتے جائو
یہاں بن جاتے ہیں بگڑے مقدر دیکھتے جائو

حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی بارگاہ میں پہنچ کر جس قسم کی التجاء کرتے ہیں، اس کا انداز بھی ملاحظہ ہو:

آپ کی جس پر نظر ہو خواجۂ بندہ نوازؒ
پھر وہ کیسے دربدر ہو خواجۂ بندہ نوازؒ

عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے صوفی سلطان شطاری نے حمد و نعت و منقبت ہی نہیں بلکہ مناجات اور سلام کی دنیا میں نئی آہٹ کا سہارا لیا ہے۔ وہ مختصر اور طویل بحروں میں ہی نہیں بلکہ علم عروض کی صداقتوں سے آشناء ممتاز شاعر ہیں، جو وزن، بحر، قافیہ، ردیف اور شاعرانہ امکانات کو پیش نظر رکھ کر خیال کی بلندی اور اظہار کی برجستگی کو شاعرانہ ندرت کے ساتھ پیش کرتے  ہیں اور شاعری کی روایتی اصناف کے علاوہ عصری اصناف کے ساتھ انصاف کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کا کلام روایت سے منحرف نہیں ، لیکن شاعری کے ذریعہ وہ ہر ندرت کو قبول کرتے ہوئے اپنے عقیدت شعار لہجہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں فنی اور تکنیکی خصوصیت کو بھرپور نمائندگی دیتے ہیں۔
٭٭٭

rohani aaqeedt mandi ke mizaaj shinaas shayar
Sultan ul Shura Sufi Sultan Shuttari

Professor Majeed Bedaar
sabiq saddar shoba urdu jamia osmania’ hyderabad

asar haazir mein shair w adab ke tavassut se taraqqi pasandi aur jadeediat hi nahi, balkay ma baad jdidiat ke rujhan ko farogh haasil hota ja raha hai, jis ke nateeja mein riwayat parasti ko nazar andaz karne ka taweel silsila bhi jari hai. riwayat parasti na to aib hai aur na hi is ke zareya kisi qisam ke adabi ya ikhlaqi rujhan ki kharabi zahir hoti hai, balkay riwayat parasti mein maujood ahem khayalat ko wusat dainay se bhi adab ki moasar numaindagi mumkin hai. taqaddus aur riwayati shairi ka paas w lehaaz rakhnay walay hyderabad ke buzurag shayron mein Sufi Sultan Shuttari ka shumaar hota hai. jin ka maslak sufiyana hi nahi, balkay haddarje munsifana aur rohaniyat se wabasta hai. laazmi hai ke inho ne apni zindagi guzarnay ke liye jis rohani tarz ko ikhtiyar kya, shairi ke douran bhi un hi khasusiyat ko paish e nazar rakha. qadeem daur se le kar asif sabey ke daur tak sufiya ikram aur buzurgan deen hi nahi, balkay khuda parast logon ka yeh rujhan tha ke woh ghazal, nazam, masnvi, marsia, qasida , rubae aur doosri sheri asnaf mein izhaar-e-khayaal karkay bazabta shairi ka idraak rakhnay ka saboot paish karte hai. isi tarha is daur ke mizaaj ke mutabiq mujra, thumri geet, dadra waghera likh kar shairi mein apni yaktai ko bhi wazeh kardiya. is  silsila ki kadi Sufi Sultan Shuttari bhi hain, jinhon ne apne aaba w ajdaad aur sofia kiraam ki tarz shairi ko ikhtiyar karte huve jahan romaniat ke jalwey dikhaay hain, wahein rohaniyat ko bhi apni zindagi ka lazima banakar hamd w naat w manqabat ki shairi ke alawa salam aur munajat ko bhi izhaar ka zareya banaya hai, jis ki wajah se un ki shairi ko aqeedat pasand shairi ke zumray mein shaamil kiya jaye tu beeja na hoga.
khuda aur is ke rasool? se aqeedat zahir karna bila shuba ek musalman ka farz ain hai, laikin jab koi shakhs mazhabi afkaar se aarasta hota hai to is ki tabiyat mein shaamil honey wali rohaniyat khud usay dili aqeedat ke mukhtalif gooshon se waqfiyat dilaati hai aur agar shayar ka mizaaj rakhta hai to khayalat ko dil w dimagh ke hudood se nikaal kar rohaniyat ke hudood mein daakhil kardeti hai. Sufi Sultan Shuttari ne apni aqeedat ke gooshon ko roshan karte hue do ahem sheri majmoay’ ‘ Mataa-e-Njaat ‘ ‘ aur’ Sirajan Muneera paish kiye hain, jin mein shair goi ko aqeedat ke ihsasat se waaqif kiya gaya hai. woh na sirf hamd w naat likhnay par qudrat rakhtay hain, balkay natiah qataat aur munqabat ke alawa munajat aur huzoor pur noor par salam paish karne ke alawa shuhadaye karbala ki bargaah mein nazrana aqeedat ka izhaar karkay rohani duniya ka aiwaan sajanay mein kamyabi haasil ki hai. aslaaf ke karnamon se faiz haasil karte huve Sufi Sultan Shuttari ne naton, hamdon ke alawa manaqib ke zareya aqeedat ke phool nichawar kiye hain. un ki shairi mein naat ka buland miyaar aur izhaar ka barjasta rawayya numayan nazar aata hai woh na sirf ishhq Muhammadi ke parwanay hain, balkay bazabta apne maslak ke aitbaar se hamd w naat likhnay ko deeni fareeza tasawwur karte hain. yahi wajah hai ke un ki tamam shairi ko hamd w naat o munqabat aur salam ki shairi qarar dainay ke bajaye aqeedat pasandi ki shairi qarar diya jaye to beja na hoga. gharz woh asar haazir ke aisay shayar hain ke jin ka kalaam aqeedat mein dooba huwa aur jin ke dil mein hubbe rasool? ka jazba mojzan hai jis ki wajah se wo kahte hain :

saya karam ka mujh pay bah fazl khuda hai yeh
dil mera dil nahi hai mohammed kada hai yeh


is shair ke zareya shayar ne apni aqeedat ke haqayiq ko numayan kiya hai ke un ke dil mein rasool e akram Muhammad saws ki yaad jagzeen hona Allah ka fazl hi hai, jis ki wajah se dil ki haisiyat Mohammad kada ki hogayi hai. paighambar islam ki tableegh aur aap ke irshadat ko ahmiyat dete hue Sufi Sultan Shuttari likhte hain :

tumhari guftagu mein amar haq ki jhalkiyan dekhen
huwa mahsoos khallaq do aalam ki zuban tum ho

paighambar islam? ki nisbat se ek musalman ko haasil honay wali khususiyaat ki taraf ishara karte hue khud apni zaat ko aqeeadat ka waseela banakar Sufi Sultan Shuttari yeh likhte hain :

ik nisbat aaqa ke tassaduq mein sar-e-hashar
bakhshish ke sabhi rastey hamwar huve hain


shairi mein aqeedat ko shaamil karte hue sachaai ki numaindagi aur lafzon ki dar w bast ke tavassut se naghmagi ka jadu jagana shair ke husn mein izafay ka zareya hota hai. Sufi Sultan Shuttari ki shairi ka yahi khusoosi wasf hai, woh sirf lafzon ke zareya kaifiyat ko bayan nahi karte balkay shair mai kaifiyat ko dhaalne ki aisi salahiyat rakhtay hain ke be sakhta dil se wah nikal jati hai : aaye rasool khul gaye darwazay noor ke
khud hi simat gaye hain andheray moheeb se
shairi ke fun mein tazadat ke zareya kaifiyat ko nazam karne ka husn Sufi Sultan Shuttari ki natiah shairi ka khusoosi wasf hai, woh apni hamd w naat hi nahi balkay manqabat ke zareya bhi un hi kaifiyaat ko wazeh karne ka sharf haasil kar lete hin. yeh shair mulahiza ho :


insaaf ka sooraj tu bahut garam hai laikin
mahshar mein shafaat ka shajar bhi tu ghana hai


bayak waqt ghazal aur nazam ke alawa hamd w naat w amnqabat hi nahi balkay mujra, thumri aur geet ki riwayat ko barqarar rakhtey huve Sufi Sultan Shuttari ne aqeedat ki shairi ko zindagi ka numainda bnalya hai, chunancha woh likhte hain :

 

fikar mahshar ho kaisay sultan ko
daman mustafa hai hathon mein

shairi mein sahal mumtena ke assar ko shaamil karna Sufi Sultan Shuttari ka khusoosi wasf hai. un ki shairi mein paicheeda trakib se doori ka andaaz maujood hai, woh na sirf inkisari ke sath aqeedat ka izhaar karte hain, balkey ishhq w mohabbat ke jazba ko ahmiyat dete hue shairi ke sufiyana mizaaj ki nishandahi ke silsila mein salahiyato ko istemaal karne ka hunar jantay hain. un ke kalaam se rooh mein taazgee aur imaan mein isteqamat aur aqeedat mein taqwiyat paida hoti hai. woh na sirf mukhtasar bahron mein aqeedat pasand shairi ka izhaar karte hain, balkay taweel behron ke douran bhi aqeedat ko nichhawar karkay izhaar ki garmi ka saboot paish karte hain. taweel bahar ki naat ka ek shair mulahiza ho :

zahe qismat ke sultan ko tumahray dar se nisbat hai
bas is ke haami w nasir sheh kon w makan tum ho

aqeedat ka jo andaaz Sufi Sultan Shuttari ke kalaam ka hissa hai, is mein sirf khuda aur rasool saws ke awsaf ka zikar hi nahi balkay ahal bait athar aur shuhada e karbala ke alawa hazrat Ali mushkil kusha aur Ghous Azam Dastagir ki midhat ke kai zawiye numayan nazar atay hain. hazrat Imam Hussain ? ko kharaaj aqeedat paish karte hue Sufi Sultan Shuttari likhte hain- :

hussain aalam-e-imkan javedani hai
zamee ki goad mein tanveer aasmani hai

hazrat imam Hussain ki azmat ke gun gatay huve woh na sirf Ghous Azam Dastagir ki midhat ka sahara letay hain, balkay Khwaja Moin Uddin chishti ? aur Khwaja Bandah Nawaz ki manqabat likh kar sheri aqeedat pasandi ko shahkaar ka darja dete hain. hazrat Ghous azam dastagir se aqeedat ka andaaz mulahiza ho :

dar-e -ghous ul Wara par sar jhuka kar dekhte jaao
yahan ban jatay hain bigde muqaddar dekhte jaoo
hazrat khwaja bandah nawaz ki bargaah mein

pahonch kar jis qisam ki ilteja karte hain, is ka andaaz bhi mulahiza ho :

aap ki jis par nazar ho khaja e bandah nawaz
phir woh kaisay darbadar ho khaja e bandah nawaz

aqeedat ke phool nichhawar karte hue Sufi Sultan Shuttari ne hamd w naat w manqabat hi nahi balkay munajat aur salam ki duniya mein nai aahat ka sahara liya hai. woh mukhtasir aur taweel bahron mein hi nahi balkay ilm arooz ki sadaqaton se aashna mumtaz shayar hain, jo wazan, bahar, qafia, radeef aur shayarana imkanaat ko paish e nazar rakh kar khayaal ki bulandi aur izhaar ki barjastagi ko shayarana nudrat ke sath paish karte hain aur shairi ki riwayati asnaf ke alawa  asnaf ke sath insaaf karkay yeh saabit karte hain ke un ka kalaam riwayat se munharif nahi, laikin shairi ke zareya woh har nudrat ko qubool karte huve apne aqeedat sheaar lehja ko kamyabi se humkenar karne mein fanni aur takneeki khasusiyat ko bharpoor numaindagi dete hain.asr

صوفی تاج ور۔سلطان الشعراء صوفی سلطان شطاری

ڈاکٹر فاروق شکیل
سلطان کے سروں پر ہیرے جواہرات جڑے تاج ہوتے ہیں لیکن سلطان شطاری ایسے سلطان ہیں جن کے سر پر صوفیانہ تاج رکھا ہوا ہے۔ اس تاج کے سامنے ہیرے جواہرات کا تاج چمک دمک کے باوجود اپنی کم تری کا اعتراف کرتا ہے۔
صوفی سلطان شطاری کا خاندانی سلسلہ حضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے بڑے فرزند حضرت سید شاہ عبدالرزاقؒ سے ہوتا ہوا آل رسولؐ تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد محترم صوفی عبدالمنان قادری شطاری کشور نرملی نہ صرف فارسی اور اردو کے ممتاز شاعر تھے بلکہ رشد وہدایت کا سلسلہ بھی جاری تھا اور یہی سلسلہ سلطان شطاری نے بھی جاری رکھا۔ ان کے مریدین بھی ہندو بیرون ہند پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے تو شاعری کی بنیادی قوت شاعر کی شخصیت کی آگہی ہے اور سلطان شطاری کی شخصیت کا عکس ان کی شاعری میں جا بہ جا ملتا ہے۔ ان کی ظاہری شخصیت سب کے سامنے ہے۔ پر نورچہرہ کہہ رہا ہے کہ باطن بھی اجلا ہے۔ مزاج میں سادگی اور انکساری ، تکبر شکن ہے۔ خلوص اور محبت فطرت میں شامل ہے۔ منافقت اور ریا کاری ان کے قریب آنے سے ڈرتی ہے۔ خاندانی عظمت نہ صرف چہرے سے چھلکتی ہے بلکہ سلوک بھی صوفیانہ ہے۔ مزاج بھی شاعرانہ ہے اور تخیل بھی عاشقانہ ہے جو ان کی نعتوں اور غزلوں میں جلوہ گر ہے۔ نعت اور منقبت میں عشق اور عقیدت کی روشنی پھیلی ہوئی ہے وہی روشنی جو انہیں ورثے میں ملی ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں۔
آپ کے جلوؤں سے دل روشن رہے

آپؐ کا ذکر اگر ہو تو ہے جینے کا مزہ
ورنہ ہر سانس ہے بیکار رسولؐ عربی
اجالے کی مجھے حاجت نہیں ہے
میں نقش پا نبیؐ کا دیکھتا ہوں
قرآن سامنے ہے تصور ہے آپ کا
کیا کیا شرف بفضل خدا پارہا ہوں میں
جب تک بھی زندگی کا مری سلسلہ رہے
ذکر رسولؐ پاک کا بس مشغلہ رہے

اور منقبت کے یہ اشعار:

علیؓ مشکل کشا کا نام صبح شام لینا ہے
کہ ہم کو ساقی کوثر سے اپنا جام لینا ہے
حسینؓ عالم امکان میں جاودانی ہے
زمیں کی گود میں تنویر آسمانی ہے
یہاں جلوے برستے ہیں سرعرش معلیٰ سے
بنا گھر آئینہ خانہ معین الدین چشتیؒ کا
دامن سلطاںؔ میں سلطان دکن کی بھیک ہو
کیوں نہ سائل معتبر ہو خواجہ بندہ نوازؒ

صوفی سلطان شطاری کی نعتوں میں جو والہانہ پن ہے وہ دامن کرم سے وابستگی کا مظہر ہےان کے جذبوں کے رنگ نعتوں کے لفظ لفظ میں ڈھل کر اپنی محبت وعقیدت کی تصویر بناتے ہیں۔ انہوں نے زبان کے استعمال میں بھی فن کی روایتوں کو شعوری طور پر ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے لہجے میں جو سادگی اور مٹھاس ہے وہ ذہن ودل پر ارتسامات ثبت کرتی ہے۔ غزلوں میں بھی انہوں  نے روایت کے حسن کو سنوارا ہے۔ اس کی زلفوں میں کلاسیکی ستارے ٹانکے ہیں سنجیدہ لہجے کے ساتھ کائنات کا درد، مشاہدات کا لمس قربتوں کی لطافتیں، تنہائیوں کا کرب اور تجربات کی تلخیوں کی شعری تجسیم کاری نہایت عام فہم زبان میں کی ہے۔ چند اشعار پیش ہیں:

خیال یار کچھ اس طرح آتا جاتا ہے
تمام رات درد دل کو کھٹکھٹاتا ہے
گل بدن، غنچہ دہن، رنگ چمن، شیریں سخن
تجھ میں جو بات ہے وہ بات ہزاروں میں نہیں
محبت پہلے تو خوشیوں کی دل سے چھین لیتی ہے
عطا کرتی ہے پھر درد والم آہستہ آہستہ
رگ احساس میں دوڑے گا شراروں کا لہو
چھوکے دیکھے تو کوئی میرے تخیل کا بدن
جھانک کر آنکھوں میں میری دیکھ لو
کتنے ویرانے سفر کرتے ہیں
امتیاز حق وباطل کس قدر مشکل ہے آج
انقلاب وقت تیری کونسی منزل ہے آج
تہذیب نہ اخلاق نہ کردار ہے کوئی

اس دور میں کیا کوئی بھی انسان نہیں ہے
اس طرح کے بے شمار اشعار ان کے دونوں غزلیہ کتابوں میں موجود ہیں۔
صوفی سلطان شطاری کی شاعری میں غزل تمام تر فنی لوازم کے ساتھ کلاسیکی آہنگ اور اسلوب میں اپنے جلوے بکھیرتی نظر آتی ہے ان کے یہاں بے ساختگی بھی ہے اور سبک روی بھی ، نغمگی بھی ہے اور شائستگی بھی، بالغ نظری بھی ہے اور معنی آفرینی بھی ہے۔ مختصر یہ کہ صوفی سلطان  شطاری نعتیہ اور غزلیہ شاعری کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

یا نبیؐ آباد یہ مسکن رہے

Sufi Taaj war. Sultan ul Shura Sufi Sultan Shuttari

Dr. Farooq Shakeel
Sultan ke surun par heere jawahraat judey taaj hotey hain laikin Sultan Shuttari aisay Sultan hain jin ke sar par sufiyana taaj rakha huwa hai. is taaj ke samnay heere jawahraat ka taaj chamak damak ke bawajood apni kam tari ka aitraaf karta hai.
Sufi Sultan Shuttari ka khandani silsila hazrat Ghous Azam Dastagir ke baday farzand Hazrat Syed Shah Abdul Razzaq se hota huwa all rasool saws tak pahunchth hai. un ke waalid mohtaram Sufi Abdul Mnannan Qadri Shuttari Kishwar Nirmali na sirf farsi aur urdu ke mumtaz shayar thay balkay rushd w hidayet ka silsila bhi jari tha aur yahi silsila Sultan Shuttari ne bhi jari rakha. un ke murideen bhi hind w beroon hind phailey huve hain. jahan tak shairi ki baat hai to shairi ki bunyadi qowwat shayar ki shakhsiyat ki aagahi hai aur Sultan Shuttari ki shakhsiyat ka aks un ki shairi mein ja bah ja milta hai. un ki zaahiri shakhsiyat sab ke samnay hai. pur noor chehra kah raha hai ke batin bhi ujla hai. mizaaj mein saadgi aur inkisari, takabbur shikan hai. khuloos aur mohabbat fitrat mein shaamil hai. munafqat aur riya kaari un ke qareeb anay se darti hai. khandani azmat na sirf chehray se chalkti hai balkay solook bhi sufiyana hai. mizaaj bhi shayarana hai aur takhayyul bhi aashiqana hai jo un ki naton aur ghazlon mein jalva gar hai. naat aur manqabat mein ishhq aur aqeedat ki roshni phail huvi hai wohi roshni jo inhen virsay mein mili hai.  ashaar

mulahiza hon.

aap ke jalvon se dil roshan rahey
ya nabi abad ye maskan rahey
aap ka zikar agar ho tu hai jeeney ka maza
warna har saans hai bekar rasool arabi
ujalay ki mujhe haajat nahi hai
mein naqsh pa nabi ka daikhta hon
quran samnay hai tasawwur hai aap ka
kiya kiya sharf bafazl khuda parha hon mein
jab tak bhi zindagi ka meri silsila rahey
zikar rasool pak ka bas mashgala rahey

aur manqabat ke yeh ashaar :

Ali mushkil kusha ka naam subah shaam lena hai
ke hum ko saqi kusar se apna jaam lena hai
Hussain aalam imkaan mein javedani hai
zamee ki good mein tanveer aasmani hai
yahan jalwey baraste hain sare arsh mualla se
bana ghar aaina khanah moin uddin chishti ka
daman sultan mein sultan daccan ki bheek ho
kyun na sayel mooatbar ho khwaja bandah nawaz

Sufi Sultan Shuttari ki natun mein jo walehana pan hai woh daman karam se wabastagi ka mazhar hai un ke jazbun ke rang natun ke lafz lafz mein dhal kar apni mohabbat w aaqiedat ki tasweer banatay hain. unhon ne zabaan ke istemaal mein bhi fun ki riwayaaton ko shaori tur par malhooz rakha hai. un ke lahjey mein jo saadg aur mithaas hai woh zahen v dil par irtesamat sabt karti hai. ghazlon mein bhi unhon ne riwayat ke husn ko sanvara hai. is ki zulfon mein klasiki setaaray tankay hain sanjeeda lahjey ke sath kaayenaat ka dard, mshahdat ka lams qurbatun ki latafatein, tanhaiyon ka karb aur tajarubaat ki talkhioun ki sheri tajseem kaari nihayat aam faham zabaan mein ki hai. chand ashaar paish hain :

khayaal yaar kuch is tarha aata jata hai
tamam raat dard dil ko khatkhta hai
gul badan, ghuncha dahan, rang chaman, shereen sukhan
tujh mein jo baat hai woh baat hazaron mein nahi
mohabbat pahley tu khoshion ki dil se chean layte hai
ataa karti hai phir dard w alam aahista aahista
rag ihsas mein duday ga shararon ka lahoo
chauke dekhe tu koi mere takhayyul ka badan
jhaank kar aankhon mein meri dekh lo
kitney veraney safar karte hain
imtiaz haq w batil kis qader mushkil hai aaj
inqilab waqt teri konsi manzil hai aaj
tahazeeb na akhlaq na

kirdaar hai koi
is daur mein kiya koi bhi insaan nahi hai
is tarhan ke be shumaar ashaar un ke dono ghazliya kitabon mein mojood hain.
Sufi Sultan Shuttari ki shairi mein ghazal tamam tar fani lawazim ke sath klasiki aahang aur usloob mein apne jalwey bikhearti nazar aati hai un ke yahan be sakhtaghi bhi hai aur subk rawi bhi, naghmagi bhi hai aur shaistagi bhi, baaligh nazri bhi hai aur maienay aafreeni bhi hai. mukhtasar yeh ke Sufi Sultan Shuttari natiah aurghazliya shairi ke hawaley se hamesha yaad rakhey jayen ge.

مدتوں یاد رکھی جانے والی یادگار تقریب رسم اجراء
صوفی سلطان شطاری کی ہر دلعزیز شخصیت کا کرشمہ

ڈاکٹر جاوید کمال
جناب صوفی سلطان شطاری صاحب سے میرے تعلقات بہت قدیم ہیں اور نہ ہی قریبی، لیکن پتہ نہیں کیوں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیر خواہ اور مخلص ہیں۔ اور اسی خلوص کے زیر اثر انہوں نے بزم کشور کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اپنی پانچ کتابوں کے دوسرے ایڈیشن کی رسم اجراء تقریب کی نظامت کی ذمہ داری مجھے سونپ دی اس میں لؤ لؤ پرنٹرس اینڈ گرافکس کے مالک حافظ محمد خواجہ حمید الدین کلیم صاحب کی سفارش بھی شاید شامل تھی ہوگی جو ان کتابوں کی دوبارہ اشاعت اور سلطان شطاری صاحب کی ویب سائٹ کی تیاری کے ذمہ دار تھے۔ حالانکہ ان دنوں میں کسی وجہ سے ذہنی پراگندگی کا شکار تھا اور نظامت کے فرائض انجام دینے کے قطعی موقف میں نہیں تھا۔ پھر بھی صوفی صاحب کی محبت اور حوصلہ افزائی نے مجھے مجبور کردیا کہ میں نا نہ کروں۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ رسم اجراء تقریب سے دو دن پہلے تک اللہ کی رحمت جم کر برستی رہی اور حکومت نے ۲۸؍ ستمبر کو پوری ریاست میں تعطیل کا اعلان کردیا۔ اور رسم اجراء تقریب ایک ہفتہ تک ملتوی کرنی پڑی۔ پھر ۹؍اکتوبر کو نئی تاریخ طے ہوئی، نئے دعوت نامے چھپوائے گئے، نئے سرے سے تیاری شروع کی گئی۔ پھر ایسا ہوا کہ ۹؍اکتوبر کو شام ۴ بجے سے اچانک طوفانی بارش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں گھر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ایک بار پھر تقریب ملتوی کرنی پڑے گی۔ چھ بجے کے قریب بارش کا سلسلہ رکا اور میں آٹو کر کے میڈیا پلس کے لئے نکل پڑا ہر طرف سڑکیں پانی سے لبریز اور ٹرافک جام سے سابقہ پڑا۔ آٹو کچھوے کی چال کی طرح آگے بڑھتا رہا۔ اللہ اللہ کر کے ۷ بجے کے قریب میں میڈیا پلس پہنچ گیا۔ جہاں جناب صوفی سلطان شطاری صاحب کے علاوہ صرف دوچار لوگ موجود تھے۔ میرے استفسار پر صوفی صاحب نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ تقریب ہوگی اور مہمان خصوصی وزیر داخلہ بھی تشریف لارہے ہیں۔
مجھے تقریب کی کامیابی، مہمانوں کی آمد اور شرکاء کی تعداد پر خدشات پیدا ہو رہے تھے۔ میں مایوسی کے عالم میں نظامت کا لائحہ عمل مرتب کرنے لگا۔ تقریب کے آغاز کا وقت ۶؍ بجے دیا گیا تھا لیکن آٹھ سوا آٹھ بجے تقریب کا آغاز ہوا۔ مہمان آتے گئے اور شہہ نشین کی رونق بڑھتی گئی۔ شرکاء آتے گئے اور ہال بھرتا گیا۔ مہمانوں اور شرکاء کی کثیر تعداد کی موجودگی نے میرے اندر ایک جوش اور جذبہ بھردیا تھا۔ میرے ساتھ ساتھ صوفی صاحب اور ان کے صاحبزادوں کے چہروں پر بھی مسرت کی لہر دوڑنے لگی۔
تقریب کا آغاز اللہ کے مقدس کلام پاک سے ہوا۔ حافظ محمد بلیغ الدین غفران نے قرأت کی۔ حضورﷺ کی بارگاہ میں ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری نے صوفی سلطان شطاری صاحب کی تحریر کردہ نعت شریف بڑے ہی خوبصورت ترنم میں پیش کی۔ صوفی صاحب نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ پھر ویب سائیٹ اور کتابوں کی رسم اجرائی مہمان خصوصی جناب محمد محمود علی صاحب عزت مآب وزیر داخلہ تلنگانہ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔پروگرام کے مطابق کتابوں کی رسم اجراء جناب زاہدعلی خاں صاحب (ایڈیٹر سیاست) کے ہاتھوں عمل میں آنے والی تھی لیکن ان کی طبیعت کی ناسازی کی  بنا ان کے مکان پر کتابوں کی رسم اجرائی عمل میں آئی۔
صوفی سلطان شطاری صاحب کی شخصیت اور فن پر ڈاکٹر فاروق شکیل، ڈاکٹر م۔ق۔ سلیم، ڈاکٹر فاضل حسین پرویز ،مہمانان خصوصی میں پروفیسر مجید بیدار نے معلوماتی اور خوبصورت مضامین پڑھے۔اور تقریبا سبھی اصحاب نے اس بات کی پر زور تائید اور سراہنا کی کہ اس دور میں اردو کی خدمت کرنا اور اس کو فروغ دینا اور زمانے سے ہم آہنگ تقاضوں کو پورا کرنا ۔ اس ضمن میں جہاں لوگ صرف کتابوں کی اشاعت پر اکتفا کرتے ہیں وہیں صوفی صاحب نے نہ صرف طباعت کا اہتمام کیا ساتھ ہی ساتھ ملک بھر کی تمام یونیورسٹیوں میں اس کو محفوظ کروانے کا بھی اہتمام کیا۔ اور فی زمانے انٹرنیٹ کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کی بہترین ویب سائیٹ بنوائی جو کہ رہتی دنیا تک وہ چیز محفوظ ہوگئی اور پوری دنیا کے کسی بھی گوشے میں جب چاہے جو چاہے ان کے کلام سے استفادہ کرسکتا ہے۔ اور اردو کے چاہنے والوں کے لئے جو کہ اردو سمجھ تو سکتے ہیں لیکن رسم الخط سے ناواقف ہوں کے لئےرومن انگریزی میں کلام کو منتقل کر کے انھیں بھی محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا۔
پروفیسر ایس ۔اے۔ شکورصاحب نے دوران تقریر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوفی صاحب کی شخصیت ایسی ہے کہ ان کی تمام شاعری اور ان کی زندگی کا احاطہ اس مختصر سے پروگرام میں کچھ منٹوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان پر ایک پی ایچ ڈی ہونی چاہئے جس میں کہ صوفی صاحب کے کارناموں اور ان کے کلام کا بہتر انداز میں احاطہ ہوسکے۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ وہ ان کی ادبی خدمات کا احاطہ اس لئے نہیں کرسکتے کیونکہ جتنی میری عمر ہے صوفی صاحب کی شاعری کی مدت اس سے زیادہ ہے۔ اور کہا کہ  جہاں کلام میں حمد، اور نعتیہ مجموعے ہیں وہیں غزل میں بھی ہاتھ تنگ نہیں ہے۔ انہوں نے پر مزاح انداز میں ایک شعر کا مصرعہ دہرایاکہ

باہر نکل کے آؤ جلوہ ذرا دکھاؤ
دستک تمہارے در پر پلکوں سے میں نے دی ہے

غزل کے اشعار میں صوفیانہ انداز سے ہٹ کر بھی غضب کے شعر کہے ہیں۔ اس عمر میں بھی ماشاء اللہ یہ انداز کے شعر، یہ صوفی صاحب ہی کا کارنامہ ہے۔
اور کہا کہ صوفی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ نہ صرف بہترین شاعر ہیں۔ اور صوفی سلسلے کے بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار بھی ہیں۔ اور کئی دہائیوں سے تلنگانہ تحریک کے محرک بھی رہے اوربلا لحاظ مذہب وملت عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔جب کہ سادگی ان کا خاصہ ہے۔
ڈاکٹر محمد غوث صاحب نے سلطان شطاری صاحب کی شخصیت، کردار اور شاعری کی دل کھول کر تعریف کی۔اور کہا کہ صوفی صاحب کو اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے خصوصی تہنیتی پروگرام منعقد کر کے تہنیت پیش کی جائے گی۔ اور ان کی خدمات کو سراہا جائےگا۔ ان کی شخصیت صوفی باصفا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک کامل انسان ہیں۔ نہایت سادہ مزاج۔ اور تکبر سے عاری شخص ہیں۔
اس کے بعد صوفی صاحب کے صاحبزادے محمد عبدالمعز قادری نے اپنے بچپن اور والد صاحب کے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے مشفقانہ برتاؤ کے بعض گوشوں کو اُجاگر کرتے ہوئے سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیردیں۔ کہا کہ جہاں پر والد محترم کے مختلف گوشوں پر قابل قدر حضرات نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا وہیں پر میں ان گوشوں پر بات کروں گا جو کہ والد محترم کی نجی زندگی سے متعلق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ چھوٹے تھے توگھر میں والد صاحب ہم بچوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لئے مشاعرے کی محفل منعقد کیا کرتے تھے۔ جس میں ہم لوگ انہیں کی رٹائے ہوئے اشعار دہرایا کرتے تھے۔ اور ہمارے خصوصی طور پر تخلصات بھی ہوا کرتے تھے، جن میں قابل ذکر میرا، کیونکہ میں بہت دبلا ہوا کرتا تھا اسی مناسبت سے مجھے ’’مریل‘‘ کا تخلص دیا گیا۔ اور میرے چھوٹے بھائی سبحان قادری جو اس وقت بہت چھوٹے تھے تو ان کا تخلص ’’ کھرچن‘‘ تھا۔ اسی طرح کسی کا مشقاب ، کسی کا برتن وغیرہ تخلص تھے۔
اور سب سے خاص بات کہ والد محترم کا برتاؤ ان کے ساتھ نہ صرف مشفقانہ تھا بلکہ دوستانہ بھی تھا۔ وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کوئی بھی بات ہو بلا جھجک ایک مخلص دوست کی طرح اپنے والد سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ہر ہر چیز میں ان کی رہنمائی ہوجاتی تھی۔ ان سب کے باوجود انہوں نے کبھی اپنا وقار نہیں کھویا جہاں وہ ان کے حق میں استاد تھے، وہیں رہنما بھی تھے اور دوست بھی تھے۔ لیکن اتنا سب ہونے کے باوجود ان کا رعب بحیثیت والد ان پرآج بھی باقی ہے جب کہ وہ خود پچاس سال کے قر یب ہیں۔
ایک بیٹے کا اپنے والد بارے میں ان خیالات ا ظہار بذات خودصوفی صاحب کے باکمال اور ایک کامیاب اور مثالی والد ہونے کا ثبوت ہے۔
اس کے بعد تمام مہمانوں نے صوفی صاحب کی بکثرت گلپوشی وشال پوشی کی کر کے دلی مبارکباد پیش کی۔ اورسب ہی شرکاء نے احقر کی دلکش نظامت کی تعریف کی۔ بعد ازاں سلطان

الشعراء صوفی سلطان شطاری صاحب کی صدارت میں مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ شہر اور اضلاع کے ممتاز شعراء نے کلام سنایا۔ نظامت کے فرائض جناب محبوب خان اصغر نے انجام دیئے۔ اس طرح یہ کامیاب ترین اور خوشگوار ویادگار تقریب کا رات ۱ ؍ بجے اختتام عمل میں آیا۔ محمد عبدالمعز قادری شطاری، محمدعبدالمجیب قادری شطاری، محمد سبحان قادری شطاری، حافظ محمد خواجہ حمید الدین کلیم، اور مصعب بامسدوس نے انتظامات کی نگرانی کی۔

٭٭٭

muddatun yaad rakhi jane wali yadgar
taqreeb rasam ajra
Sufi Sultan Shuttari ki har dil azaiz
shakhsiyat ka karishma

Dr. Javed Kamaal
janab Sufi Sultan Shuttari sahib se mere taluqaat bahut qadeem hain aur na hi qareebi, laikin pata nahi kiyun hum donon ek dosray ke khair khuwah aur mukhlis hain. aur isi khuloos ke zair assar unhon ne bazm kishwar ke zair e ihtimaam shaya honay wali apni paanch kitabon ke dosray edition ki rasam ijra taqreeb ki nizamat ki zimma daari mujhe saump di is mein lulu printer and graphics ke malik Hafiz Mohammad Khwaja Hameed Uddin Kaleem Sahib ki sifarish bhi shayad shaamil thi hogi jo un kitabon ki dobarah ishaat aur Sultan Shuttar Sahib ki Website ki tayari ke zimma daar thay. halaank un dinon mein kisi wajah se zehni pragandagi ka shikaar tha aur nizamat ke faraiz anjaam dainay ke qatee muaqqaf mein nahi tha. phir bhi Sufi Sahib ki mohabbat aur hosla afzai ne mujhe majboor kardiya ke mein na na karoon. Allah ki karni aisi huvi ke rasam ijra taqreeb se do din pahley tak Allah ki rahmat jam kar barasti rahi aur hukoomat ne 28 September ko poori riyasat mein tateel ka elaan kardiya. aur rasam ajra taqreeb aik hafta tak multawi karni padi. phir 9 October ko nai tareekh tay hui, nay dawat naame chpwaye gaye,  naye siray se tayari shuru ki gayi. phir aisa huwa ke 9 October ko shaam? 4 baje se achanak tofani barish ka silsila shuru hogaya. mein ghar baitha soch raha tha ke ek baar phir taqreeb multawi karni pade gi. 6  bajey ke qareeb barish ka silsila ruka aur mein auto kar ke media plus ke liye nikal pada har taraf sadkain pani se labraiz aur trafik jaam se sabiqa pada. auto kachway ki chaal ki tarha agay badhta raha. Allah Allah kar ke? 7 bajey ke qareeb mein media plus pahonch gaya. jahan janab Sufi Sultan Shuttari sahib ke alawa sirf do char log maujood thay. mere istefsaar par sufi sahib ne baday pur etmaad lahjey mein kaha ke taqreeb hogi aur maheman khusoosi wazeer e dakhila bhi tashreef larhe hain.

mujhe taqreeb ki kamyabi, mehmanon ki aamad aur shurka ki tedaad par khadshaat paida ho rahey they. mein mayoosi ke aalam mein nizamat ka laihe amal murarttab karne laga. taqreeb ke aaghaz ka waqt 6  bajey diya gaya tha laikin aath sawa aath bajey taqreeb ka aaghaz  huwa. maheman atay gaye aur sheh nasheen ki ronaqe badhti gayi. shurka atey gaye aur hall bharta gaya. mehmanon aur shurka ki kaseer tedaad ki maujoodgi ne mere andar ek josh aur jazba bharduya tha. mere sath sath sufi sahib aur un ke sahbzadon ke cheharon par bhi musarrat ki laher dodney lagi.

taqreeb ka aaghaz Allah ke muqaddas kalaam pak se huwa. Hafiz Mohammad Baleegh Uddin Ghafran ne qirat ki. huzoort saws ki bargaah mein Dr. Tayyab Pasha Qadri ne Sufi Sultan Shuttari sahib ki tahreer kardah naat shareef badey hi khobsorat tarannum mein paish ki. Sufi sahib ne mehmanon ka istaqbaal kiya. phir Website aur kitabon ki rasam ijraie maheman khusoosi Janab Mohammad Mahmood Ali Sahib izzat maab wazeer e dakhla telengana ke hathun amal mein aayi. programe ke mutabiq kitabon ki rasam ijra Janab Zahid Ali Khan sahib (editor siasat)  ke hathon amal mein anay wali thi laikin un ki tabiyat ki na saazi ki bina un ke makaan par kitabon ki rasam ijraie amal mein aayi.

Sufi Sultan Shuttari sahib ki shakhsiyat aur fun par Dr.Farooq Shakeel, Dr. Meem  Qaaf  Saleem ,  Dr. Fazil Hussain Parvez  ,mahmanan khusoosi mein Professor Majeed Bedaar ne malomati aur khobsorat mazameen padhay. aur taqreeban sabhi ashaab ne is baat ki pur zor taied aur sarahana ki ke is daur mein urdu ki khidmat karna aur is ko farogh dena aur zamane se hum aahang taqazoon ko poora karna. is zimn mein jahan log sirf kitabon ki ishaat par iktefa karte hain wahein Sufi sahib ne na sirf tabaat ka ihtemam kiya sath hi sath mulk bhar ki tamam universition mein is ko mahfooz  karwane ka bhi ihtemaam kiya. aur fi zamane internet ki sahuliyaat se istefada karte huve is ki behtareen Website banwai jo ke rahti duniya tak woh cheez mehfooz hogayi aur poori duniya ke kisi bhi gooshay mein jab chahay jo chahay un ke kalaam se istefada karsaktha hai. aur urdu ke chahanay walon ke liye jo ke urdu samajh tu satke hain laikin rasam ul kaht se nawaqif hon ke liye roman angrezi mein kalaam ko muntaqil kar ke unhein bhi mahzooz honey ka mauqa faraham kiya.

Professor S.A.Shukoor sahab ne dauran taqreer  apne khiyalaat ka izhaar karte huve kaha ke Sufi sahib ki shakhsiyat aisi hai ke un ki tamam shairi aur un ki zindagi ka ahaata is mukhtasar se programe mein kuch mintun mein bayan nahi kiya ja sakta balkey un par ek Ph.D  honi chahiye jis mein ke Sufi sahib ke karnamon aur un ke kalaam ka behtar andaaz mein ahaata  hosakey.

unhon ne is baat ka aitraaf bhi kiya ke woh un ki adbi khidmaat ka ahaata is liye nahi kar saktey kiyunkey jitni meri umar hai Sufi sahib ki shairi ki muddat is se ziyada hai. aur kaha ke jahan kalaam mein hamd, aur natiah majmoay hain wahein ghazal mein bhi haath tang nahi hai. unhon ne pur mizah andaaz mein ek shair ka misra dohraya ke 

 

bahar nikal ke aao jalva zara dikhao

dastak tumahray dar par palkon se mein ne di hai

 

ghazal ke ashaar mein sufiyana andaaz se hatt kar bhi gazab ke shair kahe hain. is umar mein bhi masha Allah yeh andaaz ke shair, yeh Sufi sahib hi ka karnaama hai.

aur kaha ke Sufi sahib hama jahat shakhsiyat ke maalik hain. woh na sirf behtareen shayar hain. aur sufi silsilay ke bhi hain aur sath hi sath khidmat khalq ke jazba se sarshar bhi hain. aur kai dahaiyon se telengana tahreek ke muharrak bhi rahey aur bila lehaaz mazhab v milat awam ki khidmat ko apna sheaar banaye huve hain. jab ke saadgi un ka khaasa hai.

Dr. Mohammad Ghouse sahib ne Sultan Shuttari sahib ki shakhsiyat, kirdaar aur shairi ki dil khol kar tareef ki. aur kaha ke Sufi sahib ko urdu acadme telengana ki janib se khusoosi tahniyati programe munaqqid kar ke tahiniat paish ki jaye gi. aur un ki khidmaat ko saraha jaye ga. un ki shakhsiyat sufi ba safa honey ke sath sath woh ek kaamil insaan hain. nihayat saada mizaaj. aur takabbur se aari shakhs hain.

is ke baad sufi sahib ke sahibzaday Mohammad Abdul Moiz Qadri ne  apne bachpan aur waalid sahib ke un ke sath rava rakhay jane walay mushfiqana bartao  ke baaz gooshon ko ujagr karte huve sab ke cheharon par muskorahatein bikhair deen.

kaha ke jahan par waalid mohtaram ke mukhtalif gooshon par qabil qader hazraat ne apni apni aaraa ka izhaar kiya wahein par mein un gooshon par baat karoon ga jo ke waalid mohtaram ki niji zindagi se mutaliq hain. unhon ne kaha ke jab woh chotey they to ghar mein waalid sahib hum bachon ki tarbiyat aur hosla afzai ke liye mushairay ki mahfil munaqqid kiya karte thay. jis mein hum log inhen ki ratae huve ashaar dohraya karte thay. aur hamaray khusoosi tur par takhlosat bhi huwa karte thay, jin mein qabil zikar mera, kiyunkay mein bahut dubla huwa karta tha isi munasbat se mujhe’  ‘ mariyal’  ‘ ka takhallus diya gaya. aur mere chotey bhai Subhan Qadri jo is waqt bahut chotey they to un ka takhallus’ ‘  khurchan ‘ tha. isi tarah kisi ka mushqab kisi ka bartan waghera takhallus thay.

aur sab se khaas baat ke waalid mohtaram ka bartao un ke sath na sirf mushfiqana tha balkey dostana bhi tha. woh zindagi ke kisi bhi marhaley mein koi bhi baat ho bilaa jhijak ek mukhlis dost ki tarha   –apne waalid se mahswara kiya karte thay. har har cheez mein un ki rahnumai hojati thi. un sab ke bawajood unhon ne kabhi apna waqar nahi khoya jahan woh un ke haq mein ustaad thay, wahein rahnuma bhi thay aur dost bhi thay. laikin itna sab honay ke bawajood un ka roab bahasiat waalid un par aaj bhi baqi hai jab ke wo khud pachaas saal ke qareeb hon.

ek betey ka apne waalid ke baray mein in khaayalat  izhar bazat khud Sufi sahib ke bakamaal aur ek kamyaab aur misali waalid honay ka saboot hai.

is ke baad tamam mehmanon ne Sufi sahib ki ba kasrat gulposhi w shal poshi kar ke dili mubarakbaad paish ki. aur sab hi shurka ne ahqar ki dilkash nizamat ki tareef ki. baad azan Sultan ul Shura Sufi Sultan Shuttari sahib ki sadarat mein mushaaira ka ineqad amal mein aaya. shehar aur azlaa ke mumtaz shouraa ne kalaam sunaya. nizamat ke faraiz janab Mahboob Khan Asghar ne anjaam diye. is tarha ye kamyaab tareen aur khushgawar w yaad gar taqreeb ka raat 1 baje ekhtetaam amal mein aaya. Mohammad Abdul Moiz Qadri Shuttari, Muhammed Abdul Mujeeb Qadri Shuttari, Mohammad Subhan Qadri Shuttari, Hafiz Mohammad Khwaja Hameed Uddin Kaleem aur Musab bamasdoos ne intizamaat ki nigrani ki.